حیران کن حقائق
24 کروڑ سے زائد آبادی والے ملک میں 3 کروڑ 80 لاکھ بھکاری ہیں جس میں 12 فیصد مرد، 55 فیصد خواتین، 27 فیصد بچے اور بقایا 6 فیصد سفید پوش مجبور افراد شامل ہیں۔
ان بھکاریوں کا 50 فیصد کراچی، 16 فیصد لاہور، 7 فیصد اسلام آباد اور بقایا دیگر شہروں میں پھیلا ہوا ہے۔
کراچی میں روزانہ اوسط بھیک 2ہزار روپے، لاہور میں 1400 اور اسلام آباد میں 950 روپے ہے۔
پورے ملک میں فی بھکاری اوسط 850 روپے ہے۔
روزانہ بھیک کی مد میں یہ بھکاری 32 ارب روپے لوگوں کی جیبوں سے نکال لیتے ہیں۔
سالانہ یہ رقم117 کھرب روپے بنتی ہے۔
ڈالر کی اوسط میں یہ رقم 42 ارب ڈالر بنتی ہے۔
اب دوسری طرف آئیے
3 کروڑ 80 لاکھ افراد اگر کام کریں تو فی کس اوسطا" 2 ہزار روپے کی پروڈکٹ بناسکتے ہیں۔ اس اعتبار سے یہ روزانہ 76 ارب روپے یعنی 27 کروڑ ڈالر کی گھریلو صنعت کی پروڈکٹس بناسکتے ہیں اور سالانہ کام کے دنوں کے اعتبار سے 78 ارب ڈالر کی پروڈکٹس تیار کرسکتے ہیں۔
اگر ہم پچاس فیصد ہی ایفیشنسی ریٹ لے لیں تب بھی سالانہ 39 ارب ڈالر کی ایکسپورٹ متوقع ہے۔
بغیر کسی منافع بخش کام کے بھکاریوں پر ترس کھاکر انکی مدد کرنے سے ہماری جیب سے سالانہ 42 ارب ڈالر نکل جاتے ہیں۔ اس خیرات کا نتیجہ ہمیں سالانہ 21 فیصد مہنگائی کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے اور ملکی ترقی کے لئیے 3 کروڑ 80 لاکھ افراد کی عظیم الشان افرادی قوت کسی کام نہیں آتی۔
جبکہ ان سے کام لینے اور معمولی کام ہی لینے کی صورت میں آمدنی 38 ارب ڈالر متوقع ہے جو چند برسوں میں ہی ہمارے ملک کو مکمل اپنے پاؤں پر نہ صرف کھڑا کرسکتی ہے بلکہ موجودہ بھکاریوں کے لئیے باعزت روزگار بھی مہیا کرسکتی ہے۔
گلی گلی موجود لنگر خانے، ایدھی ، سیلانی اور دیگر تنظیموں کی طرف سے مفت کھانے کی فراہمی صرف ہڈ حرام پیدا کررہی ہے اور ملک کی تباہی میں ان سب کا بھی بھرپور حصہ ہے۔
یہ ادارے ریڈی میڈ گارمنٹس ، ویلڈنگ ڈیزائن، کاشتکاری اور بیشمار زرائع میں اس مین پاور کو استعمال کریں اور ان ملازمین کو اجرت کے ساتھ کھانا بھی فراہم کردیں۔ بنگلہ دیش ماڈل اس کے لئیے ہماری مدد کرسکتا یے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس بھیک، مدرسوں کے چندے، مزارات کے چڑھاوے اور غیر مستحق کو دئیے جانے والے صدقات سے اگر کسی کو بھی کوئی فوائد حاصل ہوئے ہوں اور اللہ کے وعدے کے مطابق ایک کا دس فوری ملا ہو تو وہ بیشک اپنا عمل جاری رکھے۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ اللہ کبھی ان غیر مستحقین کو دئیے جانے کا بدلہ نہیں دیگا کیونکہ سنت کے مطابق آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے پیالہ بیچ کر کلہاڑی خرید کے دی تھی امداد نہیں کی تھی۔
اب اگر عوام اسی مہنگائی میں جینا چاہتے ہیں اور اپنے بچوں کی روٹی ان بھکاریوں کو دیکر مطمئن ہیں تو بیشک اگلے سو سال اور ذلت میں گزارئیے۔
لیکن
اگر آپ چند سالوں میں ہی مضبوط معاشی استحکام اور اپنے بچوں کے لئیے پرسکون زندگی دینا چاہتے ہیں تو آج ہی سے تمام بھکاریوں کو خداحافظ کہہ دیجیے۔ مدرسوں کے چندے اور مفت کھلانے کے تمام عوامل کا بائیکاٹ کردیجیے۔ اولا" تو اس کے خلاف بیشمار فتاوی ملینگے، مزارات والے آپکو گستاخ و منکر کہیں گے، سخت عذاب سے بھی ڈرائینگے اور بھی بہت کچھ متوقع ہے لیکن پانچ سال کے بعد آپ اپنے فیصلے پر انشاللہ نادم نہیں ہونگے اور اپنے بچوں کو پھلتا پھولتا دیکھ کر خوشی محسوس کرینگے۔
بنگلہ دیش نے جس دن بھکاری سسٹم کو خداحافظ کہا تھا، اس کے صرف چار سال بعد اسکے پاس 52 ارب ڈالر کے ذخائر تھے۔ کیا ہم اچھی بات اور مستند کام کی تقلید نہیں کرسکتے۔
اب اپنے بچوں کے لئیے فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے
Post a Comment